کار میں سوار رفقاء میں سے ایک نوجوان عالم دین سے اس حقیر نے سوال کیا: مولانا آپ کہاں جائیں گے؟ ان کے جواب دینے سے پہلے خود اس حقیر کو جیسے اندر سے کسی نے جھنجھوڑدیا، انہوں نے جواب دیا: مجھے دہلی جاکر فلاں جگہ جانا ہے۔ اپنی اس اندر کی کیفیت سے متاثر ہوکر ساتھ کام کرنے والے رفقاء کو اس میں شریک کرنے کیلئے ایک کے بعد ایک چاروں ساتھیوں سے اس حقیر نے وہی سوال دہرایا، سب نے اپنے اپنے لحاظ سے اپنا ارادہ عارضی سفر کے لحاظ سے بتایا، اس حقیر نے عرض کیا: ہم کہتے ہیں کہ قرآن پر ہمارا ایمان ہے، اللہ تعالیٰ تو اپنے کلام میں یہ فرماتے ہیں: ’’ان الینا ایابھم ثم ان علینا حسابھم‘‘ ترجمہ: بلاشبہ ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے، پھر ہم پر ان کا حساب لینا ہے۔ آج تک جب کبھی اس کیفیت کا اثر ہوجاتا ہے تو پورے وجود کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے بندہ بناکر پیدا کیا، ہم سب کو اس دنیا میں غلام بناکر بھیجا گیا ہے، آقا اپنے غلام کو کسی جگہ کسی خدمت کیلئے بھیجے تو لوٹنے پر سوال کرنے کا حق دار ہوتا ہے، اور غلام جانے سے آنے کے وقت تک صرف اس فکر میں وقت گزارتا ہے کہ میرے آقا نے مجھے جس کام کیلئے بھیجا ہے مجھے شام کو اس خدمت کے سلسلہ میں اپنے آقا کو جواب دینا ہے۔ خیر امت کے افراد ہم لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے غلاموں میں ایک امتیاز اور خلعت فاخرہ عطا فرماکر خیر امت کے لقب سے نوازا تو ہم امتیازی وصف رکھنے والوں کو خلعت فاخرہ سے سرفراز کرنے کے لئے غلاموں کو جو حکم اور ذمہ داری دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے دربار سے بھیجا اس کیلئے اپنے ابدی منشور میں یہ ارشاد فرمایا: کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر خیر امت کے ہر فرد کو خاص فضل فرما کر سلیکشن کرکے ختم نبوت کا اعلان فرما کر ہمیں پوری انسانیت کی خیرخواہی اور ان کو کفرو شرک کی راہ سے نکال کر ایمان کی راہ پر لانے اور نیابت نبوت کے عظیم منصب کو ادا کرنے کیلئے نکالا گیا، اخرجت للناس فرمایا: اتفاق سے ایسے نہیں ہوا، اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ‘ اپنی مشیت، اپنے پلان اور مشن کے تحت ہمیں وجود بخشا اور اس دنیا میں بھیجا اور نکالا ہے‘ ماں کے پیٹ سے نکالا‘ کفرو شرک سے نکالا‘ بہت سے لوگوں کو اپنے گاؤں‘ اپنے شہروں اپنے ملکوں سے نکالا‘ دن ہورہا ہے تو رات کے اندھیرے سے نکالا‘ خروج یہ بھی ہے کہ رات ہورہی ہے تو دن کے جھمیلوں سے نکالا، باہر ہیں تو اپنے گھر سے نکالا، اپنے گھر میں داخل ہوئے تو باہر کے جھنجھٹ سے نکالا، تو ہمارا خروج، ہمارا آنا، ہمارے رب احکم الحاکمین خدائے برتر نے اخرجت للناس یعنی انسانیت کی بھلائی اور دعوت دین کیلئے طے کیا ہے‘ اب جب ہم اپنے رب، اپنے مالک، اپنے آقا کی مشیت، ارادہ اور حکم سے نکلے ہیں، تو پھر ثم الینا ترجعون، اور ان الینا ایابہم ثم ان علینا حسابہم کے مطابق، ہم سب سے ہمارے آقا سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ہمارا ہر قدم اس حساب کتاب کے دن کی طرف، اپنے رب کے حضور اس کی عدالت میں جواب دینے کی طرف اٹھ رہا ہے، تو کیا واقعی ہمارا خروج اور ہماری زندگی آقا کی دی ہوئی اس ذمہ داری کے شعور کے ساتھ گزر رہی ہے؟ جس ڈیوٹی کیلئے ہمیں بھیجا گیا ہے کیا ہم اپنے رب کے حضور حاضری پر اس کا جواب دینے اور حساب دینے کے حال میں ہوں گے، یقیناً نہیں اور بالکل نہیں، ہم نے تو دنیا دی‘ نفع کمانا اور ایک بالشت کا پیٹ اپنی زندگی کا حاصل سمجھ لیا ہے، پھر ہم اپنے آقا کو کیسے جواب دے سکیں گے؟ آئیے! توبہ کریں اور عہد کریں کہ آج ہم گھر سے نکلیں گے تو دروازہ پر اپنے آقا کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کو یاد کرکے نیت کرکے نکلیں گے، کہ آج دعوت کیلئے گھر سے نکل رہا ہوں‘ دن کے اجالے سے‘ رات کے سکون اور اندھیرے کی طرف‘ اپنے رب سے اس کے بندوں کی ہدایت کی دعا اور اس کیلئے پلان اور منصوبے بنانے کے لیے نکل رہا ہوں زندگی کی تگ و دو سے، گھر میں آرام و راحت کی طرف، دعوت کیلئے اپنے دہن و دماغ کی یکسوئی اور قوت حاصل کرنے کیلئے نکل رہا ہوں۔ اگر آپ نے صرف ہر خروج کے وقت اس دعوت کی ذمہ داری کو یاد کرنے اور اس کیلئے ارادہ و نیت کو پختہ کرنے کا معمول بنالیا ہے تو آپ یقین کیجئے کہ آپ کا ہر دن اور ہر رات انشاء اللہ کسی نہ کسی اللہ کے بندہ یا بندی کی ہدایت کا ذریعہ بنتا چلا جائے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں